EN हिंदी
انا ہوس کی دکانوں میں آ کے بیٹھ گئی | شیح شیری
ana hawas ki dukanon mein aa ke baiTh gai

غزل

انا ہوس کی دکانوں میں آ کے بیٹھ گئی

منور رانا

;

انا ہوس کی دکانوں میں آ کے بیٹھ گئی
عجیب مینا ہے شکروں میں آ کے بیٹھ گئی

جگا رہا ہے زمانہ مگر نہیں کھلتیں
کہاں کی نیند ان آنکھوں میں آ کے بیٹھ گئی

وہ فاختہ جو مجھے دیکھتے ہی اڑتی تھی
بڑے سلیقے سے بچوں میں آ کے بیٹھ گئی

تمام تلخیاں ساغر میں رقص کرنے لگیں
تمام گرد کتابوں میں آ کے بیٹھ گئی

تمام شہر میں موضوع گفتگو ہے یہی
کہ شاہزادی غلاموں میں آ کے بیٹھ گئی

نہیں تھی دوسری کوئی جگہ بھی چھپنے کی
ہماری عمر کھلونوں میں آ کے بیٹھ گئی

اٹھو کہ اوس کی بوندیں جگا رہی ہیں تمہیں
چلو کہ دھوپ دریچوں میں آ کے بیٹھ گئی

چلی تھی دیکھنے سورج کی بد مزاجی کو
مگر یہ اوس بھی پھولوں میں آ کے بیٹھ گئی

تجھے میں کیسے بتاؤں کہ شام ہوتے ہی
اداسی کمرے کے طاقوں میں آ کے بیٹھ گئی