EN हिंदी
عیش امید ہی سے خطرہ ہے | شیح شیری
aish-e-ummid hi se KHatra hai

غزل

عیش امید ہی سے خطرہ ہے

جون ایلیا

;

عیش امید ہی سے خطرہ ہے
دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے

ہے کچھ ایسا کہ اس کی جلوت میں
ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے

جس کے آغوش کا ہوں دیوانہ
اس کے آغوش ہی سے خطرہ ہے

یاد کی دھوپ تو ہے روز کی بات
ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے

ہے عجب کچھ معاملہ درپیش
عقل کو آگہی سے خطرہ ہے

شہر غدار جان لے کہ تجھے
ایک امروہوی سے خطرہ ہے

ہے عجب طور حالت گریہ
کہ مژہ کو نمی سے خطرہ ہے

حال خوش لکھنؤ کا دلی کا
بس انہیں مصحفیؔ سے خطرہ ہے

آسمانوں میں ہے خدا تنہا
اور ہر آدمی سے خطرہ ہے

میں کہوں کس طرح یہ بات اس سے
تجھ کو جانم مجھی سے خطرہ ہے

آج بھی اے کنار بان مجھے
تیری اک سانولی سے خطرہ ہے

ان لبوں کا لہو نہ پی جاؤں
اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے

جونؔ ہی تو ہے جونؔ کے درپئے
میرؔ کو میرؔ ہی سے خطرہ ہے

اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے