EN हिंदी
ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے | شیح شیری
aise chup hain ki ye manzil bhi kaDi ho jaise

غزل

ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے

احمد فراز

;

ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے
تیرا ملنا بھی جدائی کی گھڑی ہو جیسے

اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں
راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے

کتنے ناداں ہیں ترے بھولنے والے کہ تجھے
یاد کرنے کے لیے عمر پڑی ہو جیسے

تیرے ماتھے کی شکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر
یہ گرہ اب کے مرے دل میں پڑی ہو جیسے

منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں
اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے

آج دل کھول کے روئے ہیں تو یوں خوش ہیں فرازؔ
چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے