EN हिंदी
اے خدا ریت کے صحرا کو سمندر کر دے | شیح شیری
ai KHuda ret ke sahra ko samundar kar de

غزل

اے خدا ریت کے صحرا کو سمندر کر دے

شاہد میر

;

اے خدا ریت کے صحرا کو سمندر کر دے
یا چھلکتی ہوئی آنکھوں کو بھی پتھر کر دے

تجھ کو دیکھا نہیں محسوس کیا ہے میں نے
آ کسی دن مرے احساس کو پیکر کر دے

قید ہونے سے رہیں نیند کی چنچل پریاں
چاہے جتنا بھی غلافوں کو معطر کر دے

دل لبھاتے ہوئے خوابوں سے کہیں بہتر ہے
ایک آنسو کہ جو آنکھوں کو منور کر دے

اور کچھ بھی مجھے درکار نہیں ہے لیکن
میری چادر مرے پیروں کے برابر کر دے