EN हिंदी
اگر میری جبین شوق وقف بندگی ہوتی | شیح شیری
agar meri jabin-e-shauq waqf-e-bandagi hoti

غزل

اگر میری جبین شوق وقف بندگی ہوتی

ابو محمد واصل

;

اگر میری جبین شوق وقف بندگی ہوتی
تو پھر محشور ان کے ساتھ اپنی زندگی ہوتی

جو تصویر خیالی نقش دل پر ہو گئی ہوتی
تو اپنی ذات میں ہر دم تری جلوہ‌ گری ہوتی

رضائے دوست پر قربان جس کی ہر خوشی ہوتی
حقیقت میں اسی کی غم سے خالی زندگی ہوتی

نگاہ مست ساقی سے جو مے خواروں نے پی ہوتی
یقیناً حشر تک ان کو نہ پھر تشنہ لبی ہوتی

حصول درد و غم کی کوششوں میں گر کمی ہوتی
سرور و کیف کی لذت کہاں مجھ کو ملی ہوتی

مجھے وہ باتوں باتوں میں اگر دیوانہ کہہ دیتے
تو دیوانوں میں میری معتبر دیوانگی ہوتی

ترے مشق ستم ہی نے کسی قابل کیا مجھ کو
تیرا احسان ورنہ زندگی کس کام کی ہوتی

تمہارا آئنہ بن کر جو دل پیش نظر رہتا
تمہیں تم جلوہ گر ہوتے نہ صورت دوسری ہوتی

تصور ہی کے عالم میں جو وہ تکلیف فرماتے
تو کیوں فرقت نصیبوں کے لئے شب ہجر کی ہوتی

اگر تیری طرح تبلیغ کرتا پیر مے خانہ
تو دنیا بھر میں واعظ مے کشی ہی مے کشی ہوتی

تمہاری بے نیازی کو غرض کب ہے مگر میری
تمنا ہے جبین شوق وقف بندگی ہوتی

حیات و موت کا پیغام دیتا ہر نفس واصلؔ
کبھی روپوش وہ ہوتے کبھی جلوہ‌ گری ہوتی

جو معبودان باطل کی جہاں میں سروری ہوتی
مقابل حیدری کے پست کیوں کر مرحبی ہوتی