EN हिंदी
اب ان سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا | شیح شیری
ab un se aur taqaza-e-baada kya karta

غزل

اب ان سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا

ناصر کاظمی

;

اب ان سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا
جو مل گیا ہے میں اس سے زیادہ کیا کرتا

بھلا ہوا کہ ترے راستے کی خاک ہوا
میں یہ طویل سفر پا پیادہ کیا کرتا

مسافروں کی تو خیر اپنی اپنی منزل تھی
تری گلی کو نہ جاتا تو جادہ کیا کرتا

تجھے تو گھیرے ہی رہتے ہیں رنگ رنگ کے لوگ
ترے حضور مرا حرف سادہ کیا کرتا

بس ایک چہرہ کتابی نظر میں ہے ناصرؔ
کسی کتاب سے میں استفادہ کیا کرتا