EN हिंदी
اب تو اپنے جسم کا سایہ بھی بیگانہ ہوا | شیح شیری
ab to apne jism ka saya bhi begana hua

غزل

اب تو اپنے جسم کا سایہ بھی بیگانہ ہوا

جمیل یوسف

;

اب تو اپنے جسم کا سایہ بھی بیگانہ ہوا
میں تری محفل میں آ کر اور بھی تنہا ہوا

وقف درد جاں ہوا محو غم دنیا ہوا
دل عجب شے ہے کبھی قطرہ کبھی دریا ہوا

تیری آہٹ کے تعاقب میں ہوں صدیوں سے رواں
راستوں کے پیچ و خم میں ٹھوکریں کھاتا ہوا

لذت دیدار کی اے ساعت رخشاں ٹھہر
پڑھ رہا ہوں میں ترے چہرے پہ کچھ لکھا ہوا

اب تو تیرے حسن کی ہر انجمن میں دھوم ہے
جس نے میرا حال دیکھا تیرا دیوانہ ہوا

وہ سمے رخصت ہوئے ہمدم وہ شامیں کھو گئیں
کن خیالوں کے جھمیلوں میں ہے تو الجھا ہوا