EN हिंदी
اب نہیں لوٹ کے آنے والا | شیح شیری
ab nahin lauT ke aane wala

غزل

اب نہیں لوٹ کے آنے والا

اختر نظمی

;

اب نہیں لوٹ کے آنے والا
گھر کھلا چھوڑ کے جانے والا

ہو گئیں کچھ ادھر ایسی باتیں
رک گیا روز کا آنے والا

عکس آنکھوں سے چرا لیتا ہے
ایک تصویر بنانے والا

لاکھ ہونٹوں پہ ہنسی ہو لیکن
خوش نہیں خوش نظر آنے والا

زد میں طوفان کی آیا کیسے
پیاس ساحل پہ بجھانے والا

رہ گیا ہے مرا سایہ بن کر
مجھ کو خاطر میں نہ لانے والا

بن گیا ہم سفر آخر نظمیؔ
راستہ کاٹ کے جانے والا