EN हिंदी
اب نہ بہل سکے گا دل اب نہ دیئے جلائیے | شیح شیری
ab na bahal sakega dil ab na diye jalaiye

غزل

اب نہ بہل سکے گا دل اب نہ دیئے جلائیے

احمد مشتاق

;

اب نہ بہل سکے گا دل اب نہ دیئے جلائیے
عشق و ہوس ہیں سب فریب آپ سے کیا چھپائیے

اس نے کہا کہ یاد ہیں رنگ طلوع عشق کے
میں نے کہا کہ چھوڑیئے اب انہیں بھول جائیے

کیسے نفیس تھے مکاں صاف تھا کتنا آسماں
میں نے کہا کہ وہ سماں آج کہاں سے لائیے

کچھ تو سراغ مل سکے موسم درد ہجر کا
سنگ جمال یار پر نقش کوئی بنائیے

کوئی شرر نہیں بچا پچھلے برس کی راکھ میں
ہمنسفان شعلہ خو آگ نئی جلائیے