EN हिंदी
آتے آتے مرا نام سا رہ گیا | شیح شیری
aate aate mera nam sa rah gaya

غزل

آتے آتے مرا نام سا رہ گیا

وسیم بریلوی

;

آتے آتے مرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا

رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی
دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا

وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں
راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا

جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا

آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ ہے
یہ دیا کیسے جلتا ہوا رہ گیا

اس کو کاندھوں پہ لے جا رہے ہیں وسیمؔ
اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا