EN हिंदी
آتا ہے نظر انجام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے | شیح شیری
aata hai nazar anjam ki saqi raat guzarne wali hai

غزل

آتا ہے نظر انجام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے

ذوالفقار علی بخاری

;

آتا ہے نظر انجام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
باقی ہے خدا کا نام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے

خورشید کو جام سے شرمائیں گے شام کو تیرا وعدہ تھا
ایفائے عہد شام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے

ہم کتنی پینے والے ہیں تم کتنی پلانے والے ہو
یہ راز ہے طشت از بام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے

اے رندو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کیا ساقی کا منہ تکتے ہو
محفل میں مچے کہرام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے

یہ راہ پر آ ہی جائے گا تو زاہد سے مایوس نہ ہو
اٹھ لے کے خدا کا نام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے

یہ برہم ہونے والی محفل یوں بھی برہم ہو جاتی
ہم کہہ کے ہوئے بدنام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے

اب کوئی نہیں سناٹا ہے تاروں کی آنکھیں جھپکی ہیں
چل ساتھ مرے دو گام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے