EN हिंदी
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے | شیح شیری
aankhon mein jo baat ho gai hai

غزل

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے

فراق گورکھپوری

;

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اک شرح حیات ہو گئی ہے

جب دل کی وفات ہو گئی ہے
ہر چیز کی رات ہو گئی ہے

غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو
کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے

مدت سے خبر ملی نہ دل کی
شاید کوئی بات ہو گئی ہے

جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری
تصویر حیات ہو گئی ہے

اب ہو مجھے دیکھیے کہاں صبح
ان زلفوں میں رات ہو گئی ہے

دل میں تجھ سے تھی جو شکایت
اب غم کے نکات ہو گئی ہے

اقرار گناہ عشق سن لو
مجھ سے اک بات ہو گئی ہے

جو چیز بھی مجھ کو ہاتھ آئی
تیری سوغات ہو گئی ہے

کیا جانیے موت پہلے کیا تھی
اب میری حیات ہو گئی ہے

گھٹتے گھٹتے تری عنایت
میری اوقات ہو گئی ہے

اس چشم سیہ کی یاد یکسر
شام ظلمات ہو گئی ہے

اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے

جیتی ہوئی بازیٔ محبت
کھیلا ہوں تو مات ہو گئی ہے

مٹنے لگیں زندگی کی قدریں
جب غم سے نجات ہو گئی ہے

وہ چاہیں تو وقت بھی بدل جائے
جب آئے ہیں رات ہو گئی ہے

دنیا ہے کتنی بے ٹھکانہ
عاشق کی برات ہو گئی ہے

پہلے وہ نگاہ اک کرن تھی
اب برق صفات ہو گئی ہے

جس چیز کو چھو دیا ہے تو نے
اک برگ نبات ہو گئی ہے

اکا دکا صدائے زنجیر
زنداں میں رات ہو گئی ہے

ایک ایک صفت فراقؔ اس کی
دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے