EN हिंदी
آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ | شیح شیری
aankhen hain josh-e-ashk se panghaT

غزل

آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ

مصحفی غلام ہمدانی

;

آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ
اشک پھرتے ہیں ان میں جیسے رہٹ

میں نہ سمجھا تھا خوب تیرے تئیں
ہے تو مطرب پسر بڑا نٹ کھٹ

پی گئے ہم صراحیٔ مے کو
دست ساقی سے لیتے ہی غٹ غٹ

تیرا تیر نگہ ہے وہ کافر
منہ سے اک دم جدا تو کر گھونگٹ

سمجھے تھے مار آپ دیکھی تھی
آئینے میں کسی کی زلف کی لٹ

جس کو کہتے ہیں عرصۂ ہستی
توسن عمر کی ہے اک سرپٹ

مصحفیؔ اس کے رخ پہ خط آیا
گئے وے دن گئی وہ رت ہی پلٹ

جم کے بیٹھے نہ تھا جہاں کوئی
رات دن اب رہے ہے واں جمگھٹ