EN हिंदी
آندھی میں چراغ جل رہے ہیں | شیح شیری
aandhi mein charagh jal rahe hain

غزل

آندھی میں چراغ جل رہے ہیں

اختر ہوشیارپوری

;

آندھی میں چراغ جل رہے ہیں
کیا لوگ ہوا میں پل رہے ہیں

اے جلتی رتو گواہ رہنا
ہم ننگے پاؤں چل رہے ہیں

کہساروں پہ برف جب سے پگھلی
دریا تیور بدل رہے ہیں

مٹی میں ابھی نمی بہت ہے
پیمانے ہنوز ڈھل رہے ہیں

کہہ دے کوئی جا کے طائروں سے
چیونٹی کے بھی پر نکل رہے ہیں

کچھ اب کے ہے دھوپ میں بھی تیزی
کچھ ہم بھی شرر اگل رہے ہیں

پانی پہ ذرا سنبھل کے چلنا
ہستی کے قدم پھسل رہے ہیں

کہہ دے یہ کوئی مسافروں سے
شام آئی ہے سائے ڈھل رہے ہیں

گردش میں نہیں زمیں ہی اخترؔ
ہم بھی دبے پانو چل رہے ہیں