EN हिंदी
آگ اشک گرم کو لگے جی کیا ہی جل گیا | شیح شیری
aag ashk-e-garm ko lage ji kya hi jal gaya

غزل

آگ اشک گرم کو لگے جی کیا ہی جل گیا

مومن خاں مومن

;

آگ اشک گرم کو لگے جی کیا ہی جل گیا
آنسو چو اس نے پونچھے شب اور ہاتھ پھل گیا

پھوڑا تھا دل نہ تھا یہ موے پر خلل گیا
جب ٹھیس سانس کی لگی دم ہی نکل گیا

کیا روؤں خیرہ چشمی بخت سیاہ کو
واں شغل سرمہ ہے ابھی یاں سیل ڈھل گیا

کی مجھ کو ہاتھ ملنے کی تعلیم ورنہ کیوں
غیروں کو آگے بزم میں وہ عطر مل گیا

اس کوچے کی ہوا تھی کہ میری ہی آہ تھی
کوئی تو دل کی آگ پہ پنکھا سا جھل گیا

جوں خفتگان خاک ہے اپنی فتادگی
آیا جو زلزلہ کبھی کروٹ بدل گیا

اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

کچھ جی گرا پڑے تھا پر اب تو نے ناز سے
مجھ کو گرا دیا تو مرا جی سنبھل گیا

مل جائے گر یہ خاک میں اس نے وہاں کی خاک
گل کی تھی کیوں کہ پاؤں وہ نازک پھسل گیا

بت خانے سے نہ کعبے کو تکلیف دے مجھے
مومنؔ بس اب معاف کہ یاں جی بہل گیا