EN हिंदी
آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے | شیح شیری
aae ho to ye hijab kya hai

غزل

آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے

مصحفی غلام ہمدانی

;

آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے
منہ کھول دو نقاب کیا ہے

سینے میں ٹھہرتا ہی نہیں دل
یارب اسے اضطراب کیا ہے

کل تیغ نکال مجھ سے بولا
تو دیکھ تو اس کی آب کیا ہے

معلوم نہیں کہ اپنا دیواں
ہے مرثیہ یا کتاب کیا ہے

جو مر گئے مارے لطف ہی کے
پھر ان پہ میاں عتاب کیا ہے

اوروں سے تو ہے یہ بے حجابی
مجھ سے ہی تجھے حجاب کیا ہے

اے مصحفیؔ اٹھ یہ دھوپ آئی
اتنا بھی دوانے خواب کیا ہے