EN हिंदी
آدمی نہ اتنا بھی دور ہو زمانے سے | شیح شیری
aadmi na itna bhi dur ho zamane se

غزل

آدمی نہ اتنا بھی دور ہو زمانے سے

شکیل بدایونی

;

آدمی نہ اتنا بھی دور ہو زمانے سے
صبح کو جدا سمجھے شام کے فسانے سے

دیکھ طفلک ناداں قدر کر بزرگوں کی
گتھیاں نہ سلجھیں گی مضحکہ اڑانے سے

زخم سر کے دیوانے زخم دل کا قائل ہو
زندگی سنورتی ہے دل پہ چوٹ کھانے سے

مطرب جنوں ساماں تو نہ چھیڑ یہ نغمہ
دھن خراب ہوتی ہے تیرے گنگنانے سے

گرمئ سخن سے کچھ کام بن نہیں سکتا
مل ہی جائے گی منزل دو قدم بڑھانے سے