EN हिंदी
صحرا شیاری | شیح شیری

صحرا

7 شیر

عشق نے منصب لکھے جس دن مری تقدیر میں
داغ کی نقدی ملی صحرا ملا جاگیر میں

بقا اللہ بقاؔ




ہو سکے کیا اپنی وحشت کا علاج
میرے کوچے میں بھی صحرا چاہئے

داغؔ دہلوی




بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا
مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے

کیفی اعظمی




نہ ہم وحشت میں اپنے گھر سے نکلے
نہ صحرا اپنی ویرانی سے نکلا

کاشف حسین غائر




صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی
واقف نہیں شاید مرے اجڑے ہوئے گھر سے

خمارؔ بارہ بنکوی




دیکھنا ہے تجھے صحرا تو پریشاں کیوں ہے
کچھ دنوں کے لیے مجھ سے مری آنکھیں لے جا

منور رانا




وسعت صحرا بھی منہ اپنا چھپا کر نکلی
ساری دنیا مرے کمرے کے برابر نکلی

منور رانا