تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں
افضل خان
بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے
کوئی دیکھے اس وقت چہرا تمہارا
آغا شاعر قزلباش
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
علامہ اقبال
اللہ رے سادگی نہیں اتنی انہیں خبر
میت پہ آ کے پوچھتے ہیں ان کو کیا ہوا
امیر مینائی
ہے جوانی خود جوانی کا سنگار
سادگی گہنہ ہے اس سن کے لیے
youthfullness is itself an ornament forsooth
innocence is the only jewel needed in ones youth
امیر مینائی
تمہارا حسن آرائش تمہاری سادگی زیور
تمہیں کوئی ضرورت ہی نہیں بننے سنورنے کی
اثر لکھنوی
یوں چرائیں اس نے آنکھیں سادگی تو دیکھیے
بزم میں گویا مری جانب اشارا کر دیا
فانی بدایونی