EN हिंदी
ہکی شیاری | شیح شیری

ہکی

7 شیر

خبر دیتی ہے یاد کرتا ہے کوئی
جو باندھا ہے ہچکی نے تار آتے آتے

افسر الہ آبادی




امیرؔ اب ہچکیاں آنے لگی ہیں
کہیں میں یاد فرمایا گیا ہوں

امیر مینائی




مجھے یاد کرنے سے یہ مدعا تھا
نکل جائے دم ہچکیاں آتے آتے

داغؔ دہلوی




ہچکیاں رات درد تنہائی
آ بھی جاؤ تسلیاں دے دو

ناصر جونپوری




ہچکیوں پر ہو رہا ہے زندگی کا راگ ختم
جھٹکے دے کر تار توڑے جا رہے ہیں ساز کے

ناطق گلاوٹھی




آخری ہچکی ترے زانوں پہ آئے
موت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں

قتیل شفائی




ہچکیاں آتی ہیں پر لیتے نہیں وہ میرا نام
دیکھنا ان کی فراموشی کو میری یاد کو

سخی لکھنوی