EN हिंदी
شاہد ذکی شیاری | شیح شیری

شاہد ذکی شیر

9 شیر

اب مجھے بولنا نہیں پڑتا
اب میں ہر شخص کی پکار میں ہوں

شاہد ذکی




ابھی تو پہلے پروں کا بھی قرض ہے مجھ پر
جھجک رہا ہوں نئے پر نکالتا ہوا میں

شاہد ذکی




بن مانگے مل رہا ہو تو خواہش فضول ہے
سورج سے روشنی کی گزارش فضول ہے

شاہد ذکی




میں آپ اپنی موت کی تیاریوں میں ہوں
میرے خلاف آپ کی سازش فضول ہے

شاہد ذکی




میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے

شاہد ذکی




میں تو خود بکنے کو بازار میں آیا ہوا ہوں
اور دکاں دار خریدار سمجھتے ہیں مجھے

شاہد ذکی




پھلوں کے ساتھ کہیں گھونسلے نہ گر جائیں
خیال رکھتا ہوں پتھر اچھالتا ہوا میں

شاہد ذکی




روشنی بانٹتا ہوں سرحدوں کے پار بھی میں
ہم وطن اس لیے غدار سمجھتے ہیں مجھے

شاہد ذکی




یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا مرے یار سمجھتے ہیں مجھے

شاہد ذکی