EN हिंदी
شفیق جونپوری شیاری | شیح شیری

شفیق جونپوری شیر

7 شیر

آ گیا تھا ایک دن لب پر جفاؤں کا گلا
آج تک جب ان سے ملتے ہیں تو شرماتے ہیں ہم

شفیق جونپوری




فریب روشنی میں آنے والو میں نہ کہتا تھا
کہ بجلی آشیانے کی نگہباں ہو نہیں سکتی

شفیق جونپوری




عشق کی ابتدا تو جانتے ہیں
عشق کی انتہا نہیں معلوم

شفیق جونپوری




جلا وہ شمع کہ آندھی جسے بجھا نہ سکے
وہ نقش بن کہ زمانہ جسے مٹا نہ سکے

شفیق جونپوری




کمال عاشقی ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتا
ہزاروں میں کوئی مجنوں کوئی فرہاد ہوتا ہے

شفیق جونپوری




کشتی کا ذمے دار فقط ناخدا نہیں
کشتی میں بیٹھنے کا سلیقہ بھی چاہئے

شفیق جونپوری




تجھے ہم دوپہر کی دھوپ میں دیکھیں گے اے غنچے
ابھی شبنم کے رونے پر ہنسی معلوم ہوتی ہے

شفیق جونپوری