EN हिंदी
صغیر ملال شیاری | شیح شیری

صغیر ملال شیر

16 شیر

شکستہ پائی سے ہوتی ہیں بستیاں آباد
جو اب قبیلہ ہوا پہلے قافلہ ہوگا

صغیر ملال




تعجب ان کو ہے کیوں میری خود کلامی پر
ہر آدمی کا کوئی راز داں ضروری ہے

صغیر ملال




تمام وہم و گماں ہے تو ہم بھی دھوکہ ہیں
اسی خیال سے دنیا کو میں نے پیار کیا

صغیر ملال




تیرے بارے میں اگر خاموش ہوں میں آج تک
پھر ترے حق میں کسی کا فیصلہ کیسے ہوا

صغیر ملال




ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے

صغیر ملال




زمانے بھر سے الجھتے ہیں جس کی جانب سے
اکیلے پن میں اسے ہم بھی کیا نہیں کہتے

صغیر ملال




ضرورت اس کی ہمیں ہے مگر یہ دھیان رہے
کہاں وہ غیر ضروری کہاں ضروری ہے

صغیر ملال