EN हिंदी
محمد علی ساحل شیاری | شیح شیری

محمد علی ساحل شیر

11 شیر

دور رہتی ہیں سدا ان سے بلائیں ساحل
اپنے ماں باپ کی جو روز دعا لیتے ہیں

محمد علی ساحل




ہم ہیں تہذیب کے علمبردار
ہم کو اردو زبان آتی ہے

محمد علی ساحل




جو اثاثہ زندگی کا اس نے جوڑا عمر بھر
موت کا سیلاب جب آیا تو سب کچھ بہہ گیا

محمد علی ساحل




خامشی تیری مری جان لیے لیتی ہے
اپنی تصویر سے باہر تجھے آنا ہوگا

محمد علی ساحل




کوئی کرتا ہے جب ہندوستان کی بات اے ساحلؔ
مجھے اقبال کا قومی ترانہ یاد آتا ہے

محمد علی ساحل




مرتے دم تک سب مجھ کو انسان کہیں
ایسا ہی کردار مرا ہو یا اللہ

محمد علی ساحل




مسئلے تو زندگی میں روز آتے ہیں مگر
زندگی کے مسئلوں کا حل نکلنا چاہیے

محمد علی ساحل




میری آنکھوں میں ہوئے روشن جو اشکوں کے چراغ
ان کے ہونٹوں پر تبسم کا دیا جلتا رہا

محمد علی ساحل




میری نیندیں حرام کیا ہوں گی
گھر میں رزق حلال آتا ہے

محمد علی ساحل