EN हिंदी
ماہر القادری شیاری | شیح شیری

ماہر القادری شیر

11 شیر

اگر خموش رہوں میں تو تو ہی سب کچھ ہے
جو کچھ کہا تو ترا حسن ہو گیا محدود

ماہر القادری




عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے

ماہر القادری




ابتدا وہ تھی کہ جینے کے لیے مرتا تھا میں
انتہا یہ ہے کہ مرنے کی بھی حسرت نہ رہی

At the start, life prolonged,was my deep desire
now at the end, even for death, I do not aspire

ماہر القادری




اک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی

ماہر القادری




نقاب رخ اٹھایا جا رہا ہے
وہ نکلی دھوپ سایہ جا رہا ہے

from the confines of the veil your face is now being freed
lo sunshine now emerges, the shadows now recede

ماہر القادری




پروانے آ ہی جائیں گے کھنچ کر بہ جبر عشق
محفل میں صرف شمع جلانے کی دیر ہے

ماہر القادری




سناتے ہو کسے احوال ماہرؔ
وہاں تو مسکرایا جا رہا ہے

ماہر القادری




یہی ہے زندگی اپنی یہی ہے بندگی اپنی
کہ ان کا نام آیا اور گردن جھک گئی اپنی

ماہر القادری




یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں

ماہر القادری